اسم اعظم کی فضیلت اور اس کی پہچان

اسم اعظم کی فضیلت اور اس کی پہچان:

اسم اعظم کا معنی:

اسم اعظم کا لفظی معنی: "سب سے بڑا نام" کے ہیں۔

اصطلاح میں "اسم اعظم" سے مراد:

اللہ تعالیٰ کے اسماءِ حسنیٰ میں سے کچھ وہ ہیں جن کو اس لحاظ سے خاص امتیاز حاصل ہے کہ جب ان کے ذریعہ دعا کی جائے تو دعا كی  قبولیت کی امید زیادہ ہو جاتی ہے۔ ان اسماء  کو حدیث میں ”اسم اعظم“  کہا گیا ہے، لیکن  صراحت کے ساتھ ان کو متعین نہیں کیا گیا ہے، بلکہ کسی حد تک ان اسمآء کو پوشیدہ رکھا گیا ہے۔

اسم اعظم کی فضیلت اور اس کی پہچان
اسم اعظم کی فضیلت اور اس کی پہچان

نیز احادیث کے مطالعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی ایک ہی اسمِ پاک “اسمِ اعظم” نہیں ہے بلکہ متعدد اسماءِ حسنیٰ ایسے ہیں کہ جن سے اللہ تعالیٰ کے کامل اوصاف کا علم حاصل ہوتا ہے، اور ملاء اعلیٰ (یعنی کہ مقربین فرشتے) اور ہر دور میں جن اسمآء مبارکہ سے اللہ تعالیٰ کو پکارا جاتا ہے، ان اسمآء کو  “اسمِ اعظم” کہا گیا ہے۔ (دارالافتاء جامعہ العلوم الاسلامیہ، بنوری ٹاؤن کراچی)

اسم اعظم کے بارے حدیث مبارکہ:

حضور سید دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو کہتے سنا، یعنی ان الفاظ کے ساتھ اللہ تعالی سے دعا کرتے ہوۓ سنا:

اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْئَلُكَ بِأَنِّي أَشْهَدُ أَنَّكَ أَنْتَ اللَّهُ لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ الْأَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِي لَم٘ یَلِد٘ وَلَمْ یُو٘لَد٘ وَلَمْ يَكُنْ لَّهُ كُفُواً أَحَدٌ۔

ترجمہ:

اے اللہ! میں تجھ سے اپنی حاجت کے بارے میں ان الفاظ کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں، کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک تو اللہ ہے، تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، تو اکیلا ہے، بے نیاز ہے، وہ ہے کہ جس کو نہ کسی نے پیدا کیا ہے اور نہ ہی اس کی اولاد ہے، اور کوئی بھی اس کا ہم پلہ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ہمسر۔

 

تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

خدا کی قسم تو نے اللہ تعالیٰ سے وہ اسم اعظم لے کر سوال کیا ہے کہ جب اس کے ساتھ سوال کیا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ عطا کرتا ہے اور جب اس کے ساتھ دعا کی جاتی ہے تو وہ قبول فرماتا ہے۔

اس حدیث کی اسناد میں کوئی سقم نہیں اور "اسم اعظم" کے بارے میں یہ سب احادیث سے جید اور صحیح تر ہے۔

اس حدیث پاک کے مطابق مذکورہ دعا میں جو الله تعالی کے اسمآء مبارک ذکر کیے گئے ہیں وہ "اسم اعظم" ہیں۔

اسی طرح ایک اور حدیث پاک میں آیت کریمہ کو "اسم اعظم" قرار دیا گیا ہے۔ جیسا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ میں تمہیں اللہ تعالیٰ کا وہ اسم نہ بتا دوں کہ جب اللہ تعالی کو اس سے پکارا جائے یعنی کہ دعا کی جاۓ تو وہ قبول کرے۔ اور جب اس سے سوال کیا جائے تو وہ عطا فرمائے۔ وہ دعا یہ ہے؛ جو یونس علیہ الصلوۃ والسلام نے تین تاریکیوں میں کی تھی۔

لا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ

 کسی نے عرض کیا: یا رسول اللہ یہ خاص حضرت یونس علیہ الصلوۃ والسلام کیلئے تھا یا ہم سب کے لیے بھی ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ ظلیہ وسلم نے فرمایا:

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَ نَجَّيْنٰهُ مِنَ الْغَمِّ وَكَذَلِكَ نُنْجِي الْمُؤْمِنِينَ

ترجمہ:

پس ہم نے حضرت یونس علیہ السلام کی دعا قبول فرمائی اور اسے غم سے نجات دی اور یوں ہی نجات دیں گئے ایمان والوں کو۔

( ماخذ: فیض القرآن مع حسین خواب نامه، ابو الفیض محمد شریف القادری، ص: 95)

نوٹ:

احادیث مبارکہ کے مطالعہ سے یہ یہی پتا چلتا ہے کہ "اسم اعظم" کوئی ایک مخصوص نام نہیں ہے۔ ان مذکوہ احادیث میں کچھ اسما کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان ہی الفاظ اور اسمآء کو اپنی دعا کا حصہ بنا لیجئے۔ کیوں کہ سارے پیارے نام اسی ذات پاک کے ہیں۔ اور آپ کسی بھی اچھے نام سے الله تعالی کو پکار سکتے ہیں۔ جیسا کہ الله تعالی کا ذاتی نام "اللہ" ہے۔

اس کی طرف ارشارہ کرتے ہوۓ الله تعالی نے قرآن مجید کی سورة بنی اسرائیل میں ارشاد فرمایا:

قُلِ ادْعُوا اللّٰهَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَؕ-اَیًّامَّا تَدْعُوْا فَلَهُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰىۚ

ترجمہ:

تم کہو (اے محمد): اللہ کہہ کر پکارو یا رحمٰن کہہ کر پکارو، تم جو بھی کہہ کر پکارو سب اسی کے اچھے نام ہیں۔

Post a Comment

0 Comments