بُن٘یَانٌ مَّر٘صُو٘صٌ کیا ہے

"بُن٘یَانٌ مَّر٘صُو٘صٌ" کیا ہے؟:

"بنیانٌ مرصوص" یہ سورة الصف کی آیت نمبر 4 کے آخری الفاظ ہیں۔ جس کا مطلب ہے سیسہ پلائی ہوئی دیوار، آہنی دیوار۔

ہم یہاں ایک مرتبہ پوری آیت اور اس مفہوم درج کرتے ہیں تاکہ ان الفاظ کی وضاحت ہو سکے۔

سورة الصف: 4

إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُمْ بُنْيَانَ مَرْصُوصُ ۝

ترجمہ:

"بے شک اللہ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی راہ میں اس طرح صف بستہ قتال کرتے ہیں جیسے وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں"۔

بُن٘یَانٌ مَّر٘صُو٘صٌ کیا ہے
بُن٘یَانٌ مَّر٘صُو٘صٌ کیا ہے  

تشریح:

اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اللہ کی راہ میں ثابت قدم رہتے ہیں اور اس طرح قدم جمائے کھڑے رہتے ہیں جیسے وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہوں۔

سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:

اس آیت میں اللہ تعالی نے یہ تعلیم دی ہے کہ مؤمنوں کو دشمن سے قتال کرتے ہوئے اس طرح مظبوط اور یک جان ہو کر کھڑے ہونا چاہیے جس طرح ایک آہنی اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہوتی ہے۔

اس آیت کے پیش نظر ایک مسئلہ:

اس آیت میں یہ مسئلہ معلوم ہوا کہ جنگ کے وقت صف سے باہر نہیں نکلنا چاہیے اور صف کو توڑنا نہیں چاہیے۔ سوا اس کے کہ کوئی ضروری اور اہم کام ہو یا امیر لشکر کو کوئی پیغام دینا ہو یا دشمن کا کوئی فوجی للکار رہا ہوتو اس سے مقابلہ کے لیے نکلنا جائز ہے۔  (تفسیر تبیان القرآن)

یعنی کہ سپہ سالار نے یا لشکر کے امیر نے جنگ کے دوران دشمن کے مقابلے میں کسی جگہ اپنے سپاہی کی تعیناتی کی ہو تو اس سپاہی کو ہرگز وہاں سے نہیں ہٹنا چاہیے۔

 ہاں مگر یہ کہ جنگی چالوں کے پیش نظر کوئی حکمت عملی اختیار کرتے ہوۓ اپنی پوزیشنز تبدیل کی جاسکتی ہیں۔ لیکن میدان چھوڑ کر بھاگنا یا میدان

جنگ میں اپنے لشکر کے امیر کی حکم عدولی کرنا ایک سپاہی اور مرد مجاھد کے لیے جائز نہیں ہے۔

"بنیان مرصوص" اور اسلامی تاریخ

اسلامی تاریخ میں ایسی افواج کی مثالیں موجود ہیں کہ جنہوں نے "بنیان مرصوص" کے اصول پر عمل کرتے ہوئے عظیم فتوحات حاصل کیں، جیسے غزوہ بدر میں صحابہ کرام کی صف بندی، ہم نے یہاں حصول برکت کے لیے صرف غزوء بدر کا ہی ذکر کیا۔ اہل ذوق تاریخی کتب سے یہ تمام مثالیں دیکھ سکتے ہیں جو "بنیان مرصوص" کا منہ بولتی ثبوت ہیں۔

تاریخِ اسلام گواہ ہے کہ جب بھی مسلم افواج اللہ تعالی کے حکم کے مطابق دشمن کے سامنے صف آراء ہوئیں اور نظم و ضبط کے ساتھ اللہ کے راستے میں جہاد کیا تو انہیں اللہ کی نصرت حاصل ہوئی۔ چاہے وہ بدر کا میدان ہو یا قسطنطنیہ کی فتح۔

موجودہ  دور  اور "بنیان مرصوص" کی عملی مثال:

موجودہ دور میں اگر ہم اس آیتِ مبارکہ کی جھلک دیکھنا چاہیں تو ہمیں مسلم افواج، بالخصوص افواجِ پاکستان کی صفوں میں یہ عملی مظاہر دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستانی فوج اپنی اعلیٰ نظم و ضبط، اجتماعی جذبے، اور وطن کی خاطر قربانی کے جذبے کی بدولت آج بھی ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند دشمنوں کے خلاف سینہ سپر رہتی ہے۔

جدید تقابل (Modern Relevance):

جدید جنگی اصولوں میں بھی (Unity of Command) "یونٹی آف کمانڈ" اور (Coordination) "کوارڈینیشن" جیسے تصورات دراصل "بنیان مرصوص" ہی کی عملی شکلیں ہیں۔

آج کی جدید جنگوں میں بھی عسکری ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ کامیابی کا دارومدار صرف اسلحہ پر نہیں بلکہ اس پر ہے کہ فوج کس قدر منظم اور ہم آہنگ ہے۔ یہ وہی تصور ہے جسے قرآن مجید نے چودہ سو سال قبل "بنیان مرصوص" کے الفاظ میں بیان کر دیا تھا۔

پاکستان پائندہ آباد

غلام مصطفی امینی

Post a Comment

0 Comments