غیبت کی تباہ کاریاں اور اس کی تعریف
﷽
اللہ تعالی نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا:
اَیُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ یَّاْكُلَ لَحْمَ
اَخِیْهِ مَیْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُؕ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ
رَّحِیْمٌ
ترجمہ:
کیا تم میں کوئی پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے
بھائی کا گوشت کھائے تو یہ تمہیں ناپسند ہوگا اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ بہت توبہ
قبول کرنے والا، مہربان ہے۔ (سورة الحجرات)
اس آیت میں اللہ عزوجل نے غیبت کرنے سے منع
فرمایا ہے۔
غیبت کی تعریف اور غیبت اور بہتان میں فرق:
غیت کی تعریف یہ ہے کہ کسی مسلمان کو
ذلیل اور رسوا کرنے کے لیے
اس کی پیٹھ پیچھے اس کا وہ عیب بیان کیا جائے جو اس میں ہو۔ اور اگر کسی غرض صحیح
سے اس کا عیب بیان کیا جائے تو وہ غیبت نہیں ہے اور اگر اس کے متعلق ایسا عیب بیان
کیا جائے جو اس میں نہیں ہے تو پھر وہ بہتان ہے۔
غیبت کو مردار کے گوشت سے تشبیہ دینا:
اللہ تعالیٰ نے غیبت کرنے کو مردار کا گوشت
کھانے سے تشبیہ دی ہے، کیونکہ جب مردار کا گوشت کھایا جائے تو اس کو اپنے گوشت کے
کھائے جانے کا علم نہیں ہوتا ، اسی طرح زندہ آدمی کو پتہ نہیں چلتا کہ اس کے پس
پشت کون اس کی غیبت کر رہا ہے،
حضرت ابن عباس نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے غیبت کی یہ مثال اس
لئے بیان کی ہے کہ جس طرح مردار کا گوشت گھناؤنا کام اور حرام ہے اسی طرح غیبت دین
میں حرام ہے اور دل اس سے گھن کھاتے ہیں،
حضرت ابو قتادہ نے کہا: اس کا
مطلب یہ ہے کہ جس طرح تم مردار کا گوشت کھانے کو برا جانتے ہو اور اس سے اجتناب
کرتے ہو، اسی طرح غیبت کرنے کو بھی برا جانو اور اس سے اجتناب کرو.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص سارا دن
لوگوں کا گوشت کھاتا
رہا وہ روزہ دار نہیں ہے، سو جو شخص کسی مسلمان کی تنقیص کرے یا اس کی ہتک عزت کرے وہ گویا اس زندہ آدمی کا گوشت کھا رہا ہے، اور جو
شخص غیبت کرے وہ اس مردہ آدمی کا گوشت کھا رہا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا:
جو آدمی جتنا کسی مسلمان کا گوشت کھائے گا، اللہ تعالیٰ اس
کو اتنی ہی جہنم کی آگ
کھلائے گا۔
اور آپ کا ارشاد ہے: اے وہ لوگو جو زبان سے مسلمان ہوئے ہو اور
جن کا دل مومن نہیں ہوا، مسلمان کی غیبت نہ کرو، ابو قلابہ رقاشی نے کہا:
ابو عاصم کہتے تھے جب سے مجھے علم ہوا کہ غیبت کا اس قدر گناہ ہے اس کے بعد میں
نے کسی کی غیبت نہیں کی ، میمون بن سیاہ کسی کی غیبت نہیں کرتے تھے ، ان کے سامنے
اگر کوئی شخص کسی کی غیبت کرتا تو وہ اس کو منع کرتے تھے، اگر وہ رک جاتا تو فبہا
ورنہ وہاں سے اٹھ کر چلے جاتے تھے۔
حضرت امام ثعلبی نے حضرت ابو ہریرہ رضی
اللہ عنہ کی یہ حدیث ذکر کی کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے ایک شخص اٹھا اس کے اٹھنے
میں کچھ (کمزوری) لنگ تھا،
صحابہ نے کہا: یا رسول اللہ ! یہ شخص اٹھنے سے کس قدر عاجز ہے! آپ نے فرمایا: تم
نے اپنے بھائی کا گوشت کھایا اور اس کی غیبت کی ،
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لوگوں کے
ذکر سے اجتناب کرو، کیونکہ یہ بیماری ہے اور اللہ کا ذکر کیا کرو، کیونکہ اس میں
شفاء ہے،
عمر بن عبید سے کسی نے کہا: فلاں شخص آپ کی
اس قدر برائی بیان کرتا ہے کہ ہمیں آپ پر رحم آتا ہے، انہوں نے کہا: قابل رحم تو
وہ شخص ہے۔
ایک شخص نے حسن بصری سے کہا: مجھے معلوم ہے کہ
آپ میری غیبت کرتے ہیں ، حسن بصری نے کہا: میرے نزدیک تم اتنے رتبہ کے نہیں ہو کہ
میں اپنی نیکیوں پر تمہیں حاکم بنا دوں ۔
( علامہ
ابوعبدالله حمد بن احمد . ند مالکی قرطبی متوفی 668 ه ، الجامع لاحكام القرآن، ج :16،
ص: 336–335، مطبوعه انتشارات ناصر خسرو، ایران، 1387)
علامہ نووی نے لکھا ہے کہ امام ابن المبارک
نے کہا: اگر میں کسی کی غیبت کرتا تو اپنے ماں باپ کی غیبت کرتا کیونکہ وہ میری
نیکیوں کے زیادہ مستحق ہیں۔
(علامہ یحیی
بن شرف نووی شافعی متوفی 676 ھ، الاذکار ، ص:303، مطبوعہ دار الفکر بیروت، 1375ھ )
علامہ قرطبی کے نزدیک غیبت کا تعلق:
علامہ قرطبی لکھتے ہیں:
ایک جماعت کا یہ نظر یہ ہے کہ غیبت کا تعلق
صرف امور دینیہ سے ہے ( مثلاً فلاں شخص بے نماز ہے ) اور امور خلقیہ ( مثلا فلاں
شخص کانا یا بھینگا ہے ) اور کسبیہ ( مثلا فلاں شخص موچی ہے ) بیان کرنے میں غیبت
نہیں ہے، ایک قوم نے اس کے برعکس یہ کہا کہ غیبت کا تعلق صرف خلق (جسمانی عیوب)
خلق ( فطری عیوب مثلاً بخل اور بزدلی) اور حسب ( پیشہ کے عیوب مثلاً جلاہا اور
موچی) سے ہے اور جسمانی عیوب کا بیان کرنا زیادہ سخت گناہ ہے، کیونکہ صنعت کی مذمت
کرنا صانع کی مذمت کے مترادف ہے۔
یہ تمام نظریات مردود ہیں اور ہر قسم کی غیبت
کرنا گناہ اور حرام ہے جسمانی بناوٹ کی غیبت کے حرام ہونے کی دلیل یہ ہے کہ جب
حضرت عائشہ رضی الله تعالی عنہا نے حضرت صفیہ رضی الله عنہا کے متعلق یہ کہا کہ وہ
کو تاہ قد (چھوٹا قد) ہیں تو آپ نے فرمایا:
تم نے ایسا کلمہ کہا ہے کہ اگر اس کو سمندر
میں ڈال دیا
جائے تو تمام پانی کا ذائقہ بدل جائے ، اس حدیث کو امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے کہا: یہ
حدیث حسن صحیح ہے،
اور علماء کا اس پر اجماع ہے کہ جس وصف کو
بطور عیب بیان کیا
جائے وہ غیبت ہے، اور دوسرے نظریہ کے باطل ہونے پر دلیل یہ ہے کہ تمام صحابہ اور تابعین کے نزدیک بدترین غیبت یہ
ہے کہ کسی شخص کے
دینی وصف کی مذمت کی جائے، کیونکہ دین میں عیب نکالنا سب سے بڑا عیب ہے اور مؤمن
بدنی عیب کی بہ نسبت دینی عیب کو زیادہ ناپسند کرتا ہے ، یعنی کہ اگر امور دینیہ میں
کوئی پیدا ہوجاۓ تو ایک بندۀ مومن کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ سب سے اس عیب کو دور
کیا جاۓ۔ اور بدنی عیب کی اس کو کوئی پرواہ نہیں ہوتی ۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کا ارشاد
مبارک ہے کہ : جب تم اپنے بھائی کے متعلق وہ بات کہو جس کو وہ ناپسند کرتا ہے تو
یہ غیبت ہے۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ
تمہارے خون ، تمہارے مال اور تمہاری عزتیں ایک دوسرے پر حرام ہیں، اور یہ حدیث دین اور دنیا دونوں کو
شامل ہے۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد
ہے: ” جس شخص نے اپنے بھائی کے مال یا اس کی عزت میں کوئی زیادتی کی ہو وہ اس کو
معاف کرائے۔
یہ
حدیث ہر قسم کی عزت کو شامل ہے اور جو شخص دینی اوصاف میں غیبت کو جائز کہتا ہے وہ
ان احادیث سے معارضہ کرتا ہے۔
(علامہ ابو عبد الله محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی 268 ھ، الجامع لاحکام القرآن، ج : 16 ، ص: 338، مطبوعه انتشارات ناصر خسرو ایران 1387
ماخذ از: تبیان الاسلام : (مولانا غلام رسول سعیدی رحمۃ اللہ علیہ) ص: 11
0 Comments