تہجد کی نماز کی فضیلت

 تہجد کی نماز کی فضیلت:

فرائض اور واجبات کے بعد سب سے فضیلت والی نماز ، نمازِ تہجد ہے۔ نمازِ تہجد کی حیثیت نفل کی ہے۔ لیکن اس نفل نماز کی فضیلت بہت زیادہ ہے۔

اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اپنے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کو تہجد کی نماز کے بارے میں ارشاد فرمایا:

وَمِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَهُ لَكَ (الاسراء)

ترجمہ:

"اور رات کے کچھ حصہ میں تہجد پڑھیں جو کہ خاص آپ کے لیے ہے"

تہجد کا معنی:

ابن قتیبہ نے کہا کہ تھجدت کا معنی ہے: میں بیدار ہوا، اور تہجد کا معنی ہے: سونا، اور باب تفعل کا خاصہ ہے: سلب ماخذ،  اس لیے تہجد کا معنی ہے: نیند کو زائل کرنا، اگر انسان رات کو جاگ رہا ہو اور پھر نماز پڑھے تو یہ تہجد نہیں ہوگی، نیند سے اٹھ کر نماز پڑھے تو تہجد ہوگی، کیونکہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے:

"اور آپ رات کے کچھ حصہ میں تہجد کی نماز پڑھیں"

 اس کا معنی یہ ہے کہ اگر انسان ساری رات جاگ کر نفل پڑھتا رہے تو وہ تہجد نہیں ہے، تہجد کی نماز  تب ہوگی جب وہ عشاء پڑھ کر سو جائے، پھر تہجد کے لیے بیدار ہو اور نماز پڑھے۔ (تبیان القرآن، لسعیدی)

تہجد کی نماز کی فضیلت
 تہجد کی نماز کی فضیلت

تہجد کی رکعات:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہ شمول وتر تہجد کی مختلف رکعات مروی ہیں، مثلا:

 1- امام بخاری نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سات اور نو رکعات کو روایت کیا ہے،

2-خالد بن زید نے گیارہ رکعات کو بیان کیا ہے،

3- اور امام بخاری اور امام مسلم نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ آپ نے تہجد کی تیرہ رکعات پڑھیں اور طلوع فجر کے بعد دو رکعت سنت فجر پڑھیں، (یعنی : تہجد اور وتر کی تیرہ رکعات ، اور طلوع فجر کے بعد دو رکعت فجر کی سنت۔ اس طرح کل  پندرہ رکعات  ثابت ہیں)

ان مختلف روایات میں تطبیق یہ ہے کہ آپ نے اوائل عمر میں (یعنی کہ جوانی میں) زیادہ رکعات پڑھیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب آپ سن رسیدہ ہو گئے تو رات کو سات رکعات پڑھتے تھے۔ اور اس میں حکمت یہ ہے کہ امت کے لیے توسع اور آسانی ہو اور جو شخص اپنی قوت، حالت اور وقت کی گنجائش کے اعتبار سے ان رکعات میں سے جتنی رکعات پڑھے گا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو پالے گا بہر حال آپ نے بشمول وتر تہجد کی کم سے کم سات ۷ رکعات پڑھی ہیں اور زیادہ سے زیادہ تیرہ ۱۳ رکعات پڑھیں ہیں۔ (تبیان القران، لسعیدی، بنی اسرائیل۱۷- ۷۹)

تہجد کی نماز اور رسول اللہ ﷺ کے معمولات:

أَبُو حَنِيفَةَ : عَنْ زِيَادٍ، عَنِ الْمُغِيرَةِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وسلم عَامَّةَ اللَّيْلِ حَتَّى تَوَرَّمَتْ قَدَمَاهُ، فَقَالَ لَهُ أَصْحَابُهُ: أَلَيْسَ قَدْ غُفِرَ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذنبک وما تأخر؟ قَالَ: أَفَلَا أَكُونُ عَبْدًا شَكُورًا۔

ترجمہ:

حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم رات کا اکثر حصہ قیام میں گزارتے تھے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں پر ورم آجاتا۔ صحابہ کرام علیھم الرضوان نے عرض کیا:

کیا آپ کے اگلوں اور پچھلوں کے ذنب [ گناہ ] نہیں بخشے گئے ہیں؟ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا: کیا میں اپنے پروردگار کا شکر گزار بندہ نہ بنوں!

( مسند امام اعظم)

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت کے مطابق سورۃ المزمل کے ابتدائی حصہ میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو نماز تہجد ادا کرنے کا حکم دیا۔ آپ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم اور صحابہ کرام ایک سال تک نماز تہجد فرائض کی طرح باقاعدگی سے ادا کرتے رہے لیکن بعد میں اس سورۃ کے آخری حصہ میں اس حکم میں تخفیف کر دی گئی۔

رمضان کریم کے معمولات اور تہجد:

رمضان المبارک میں دیگر معمولات کے علاوہ تلاوت قرآن ، روزہ اور نماز تراویح کا اضافہ ہو جاتا تھا۔ اس ماہ مقدس کے آخری عشرہ میں اعتکاف کا بھی اضافہ ہو جاتا تھا۔ الغرض شب و روز کا ایک ایک لمحہ عبادت و ریاضت میں گزرتا تھا۔ ان مبارک لمحات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اھل خانہ کو بھی عبادت میں اپنے ساتھ شامل کرنے کی سعی فرماتے تھے۔

 ہمہ وقت بالخصوص رات کے آخری حصہ میں عبادت میں مصروف ہونا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قدر مرغوب تھا کہ اس حوالہ سے سستی نام کی کوئی چیز اپنے پاس نہ آنے دیتے تھے۔ قیام ، قرات رکوع سجود اور تشہد میں اس قدر طوالت و اطمینان سے کام لیتے کہ سے آپ کے پاؤں مبارک پر ورم آجاتا لیکن معمولات میں کمی نہ آتی۔

 ایک مرتبہ نا قابل برداشت صورتحال دیکھ کر صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ تو امام الانبیاء کے منصب پر فائز ہیں اور معصوم ہیں تو پھر عبادت کے حوالہ سے اس قدر تکلف و مشقت کیوں ہے؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوبصورت جواب دیا:

اے میرے صحابہ آپ لوگ بالکل درست کہتے ہیں لیکن کیا میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟

 آج ہم بھی رات دن عاشق رسول ہونے کا دعوی کرتے ہیں تو کیا ہم اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ کے معمولاتِ عبادت کو ہم نے بھی کبھی اپنایا ہے؟ اگر نہیں تو خدارا! ہمیں اپنے دعوی کا بھرم رکھنے کے لیے اپنے آپ میں انقلاب پیدا کرنا ہوگا۔ (شرح مسند امام اعظم)

نماز تہجد کی فضیلت:

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فرائض کے بعد افضل نماز رات کی نماز ہے۔ چنانچہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ان لوگوں کی کیفیت کو بیان فرمایا ہے جو رات کو اٹھ کر اپنے رب کے سامنے سر بسجود ہوتے ہیں۔

ارشاد باری تعالی ہے:

تَتَجَافٰی جُنُوْبُہُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ خَوْفاً وَّطَمَعاً۔۔۔ (الم سجدہ)

ترجمہ:

"جن کے پہلو بستروں سے دور رہتے ہیں، وہ اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں"

ارشاد باری تعالی ہے:

کَانُوْا قَلِیْلاً مِّنَ اللَّیْلِ مَا یَھجَعُوْنَ ۝ وَبِالْأَسْحَارِ ھمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ۝۔ (الذاریات)

ترجمہ:

"وہ رات کے وقت کم سوتے تھے، اور رات کے پچھلے پہر مغفرت طلب کرتے تھے"۔

ارشاد باری تعالی ہے:

أَمَّنْ ھُوَ قَانِتٌ آنَائَ اللَّیْلِ سَاجِداً وَّقَائِماً یَّحْذَرُ الْأٰخِرَۃَ وَیَرْجُواْ رَحْمَۃَ رَبِّہٖ، (الزمر)

ترجمہ:

"بے شک جو رات کے اوقات سجدہ اور قیام میں گزارتا ہے، آخرت سے ڈرتا ہے اور اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتا ہے"

تہجد کے بارے احادیث:

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر رات کا جب آخری تہائی وقت شروع ہوتا ہے تو اللہ تعالی آسمان دنیا پر خاص تجلی فرماتا ہے اور اعلان کرتا ہے:

ہے کوئی دعا کرنے والا کہ میں اس کی دعا دعا قبول کروں، ہے کوئی سائل کہ میں اسے عنایت کروں اور ہے کوئی مغفرت چاہنے والا کہ میں اس کے گناہ معاف کر دوں۔ (ماخذ: شرح مسند امام اعظم) 

تہجد کی کم از کم رکعات کتنی ہیں؟

نماز تہجد کی رکعات کے بارے مندرجہ بالا تفصیل سے ذکر ہو چکا۔ تہجد کی کم از کم رکعات دو ۲ ، اور زیادہ سے زیادہ بارہ ۱۲ ہیں۔

 تہجد کی نماز کا وقت: 

تہجد کی نماز کا وقت مخصوص نہیں ہے۔ عشاء کی نماز پڑھ کر سونے کے بعد فجر کا وقت شروع ہونے سے پہلے جب بھی نیند سے بیدار ہوں تو پڑھ سکتے ہیں۔ اس میں نیند شرط ہے۔  لیکن افضل وقت رات کا تہائی حصہ (one third) ہے۔ یعنی سحر کا وقت


 

 

Post a Comment

0 Comments