دین اسلام کی اہمیت
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ۫-وَ مَا اخْتَلَفَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْیًۢا بَیْنَهُمْؕ-وَ مَنْ یَّكْفُرْ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ فَاِنَّ اللّٰهَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ فَاِنْ حَآجُّوْكَ فَقُلْ اَسْلَمْتُ وَجْهِیَ لِلّٰهِ وَ مَنِ اتَّبَعَنِؕ-وَ قُلْ لِّلَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ وَ الْاُمِّیّٖنَ ءَاَسْلَمْتُمْؕ-فَاِنْ اَسْلَمُوْا فَقَدِ اهْتَدَوْاۚ-وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَیْكَ الْبَلٰغُؕ-وَ اللّٰهُ بَصِیْرٌۢ بِالْعِبَادِ
ترجمة:
"بے شک اللہ کے نزدیک دین اسلام ہی ہے اور اہل کتاب نے علم حاصل ہونے کے باوجود جو باہم اختلاف کیا وہ ایک دوسرے سے عناد کے باعث تھا اور جو اللہ کی آیتوں کے ساتھ کفر کرے تو بے شک اللہ جلد حساب لینے والا ہے۔ اور (اے محبوب!) اگر پھر بھی یہ آپ سے جھگڑا کریں تو آپ کہئے کہ میں نے اور جس نے بھی میری پیروی کی ہے اس نے اللہ کے لیے اسلام قبول کر لیا ہے۔ اور آپ اہل کتاب اور ان پڑھ لوگوں سے کہئے کیا تم نے اسلام قبول کر لیا ؟ پھر اگر انہوں نے اسلام قبول کر لیا تو وہ ہدایت پاگئے ہیں اور اگر انہوں نے روگردانی کی تو آپ کے ذمہ تو صرف دین کو پہنچا دینا ہے اور اللہ ہی بندوں کو خوب دیکھنے والا ہے"۔
(سورة آل عمران: 19-20 )
دین اسلام کی اہمیت |
تفسیر:
اسلام کالغوی اور اصطلاحی معنی:
اصطلاح شرع کے اعتبار سے اسلام کا معنی ہے
نبی ﷺ اللہ کے پاس سے جو خبریں اور احکام لے کر آئے ان کی تصدیق کرنا اور ان کو
ماننا اور یہی ایمان کا اصطلاحی معنی ہے اور اس اعتبار سے ایمان اور اسلام واحد
ہیں البتہ لغت کے اعتبار سے ان میں فرق ہے ایمان کا لغوی معنی ہے کسی چیز کو
مامون اور بے خوف کرنا۔ انسان اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لا کر اپنے آپ کو دوزخ
کے دائمی عذاب سے محفوظ کر لیتا ہے، اور اسلام کا لغوی معنی ہے اطاعت کرنا سلامتی
میں داخل ہونا اور اخلاص جب انسان اسلام قبول کر لیتا ہے تو وہ اللہ تعالی اور اس
کے رسول کی اطاعت کرتا ہے دنیا میں اس کی جان اور مال سلامتی میں رہتے ہیں اور آخرت میں بھی وہ عذاب سے سلامت
رہتا ہے، اور جو شخص جتنا پکا مسلمان ہوتا ہے اس کے دین میں اتنا زیادہ اخلاص ہوتا
ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام کی تعلیم میں جو عقائد اور اصول
مشترک رہے ہیں ان کا نام دین ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
"اور اہل کتاب نے علم حاصل ہونے کے باوجود جو باہم اختلاف کیا وہ ایک دوسرے سے عناد کے باعث تھا اور جو اللہ کی آیتوں کے ساتھ کفر کرے تو بے شک اللہ جلد حساب لینے والا ہے"۔
اہل کتاب کے اختلاف کا بیان:
اس آیت میں جن اہل کتاب کے اختلاف کا ذکر ہے
اس کے مصداق کی تعیین میں حسب ذیل اقوال ہیں :
(1) اس سے مراد یہود ہیں اور ان کے اختلاف کا بیان یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات قریب ہوئی تو انہوں نے تورات کو ستر علماء کے سپرد کیا اور ان کو تورات پر امین بنایا اور حضرت یوشع علیہ السلام کو خلیفہ مقرر کیا۔ پھر کئی قرن گزرنے نے کے بعد ان ستر علماء کی اولاد در اولاد نے تورات کا علم رکھنے کے باوجود باہمی حسد اور عناد کے باعث ایک دوسرے سے اختلاف کیا۔
(۲) اس سے مراد نصاری ہیں اور باوجود انجیل کی تعلیمات کے انہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق اختلاف کیا اور انہیں عبداللہ کی بجائے ابن اللہ کہا۔
(۳) اس سے مراد یہود اور نصاری ہیں اور ان کا آپس میں اختلاف یہ تھا کہ یہود نے کہا کہ عزیرابن اللہ ہیں اور نصاری نے کہا کہ مسیح ابن اللہ ہیں اور ان دونوں نے سیدنا محمد میں علم کی نبوت کا انکار کیا اور انہوں نے کہا کہ قریش مکہ کی بہ نسبت نبوت کے ہم زیادہ حق دار ہیں کیونکہ وہ ان پڑھ لوگ ہیں اور ہم اہل کتاب ہیں باوجود اس کے کہ ان کے پاس سیدنا محمد ﷺ کی تصدیق کے متعلق علم آچکا تھا، ان کی کتابوں میں آپ کے متعلق اوصاف، علامات اور پیش گوئیاں تھیں۔ قرآن مجید میں ایسی آیات نازل ہو رہی تھیں جن کی تائید اور تصدیق ان کی کتابوں میں تھی اور نبی ﷺ سے ایسے معجزات کا ظہور ہو رہا تھا جن سے آپ کے دعوی نبوت کا صدق ظاہر ہو رہا تھا۔ اللہ تعالی کو ان کے کفر کا اور ان کی تمام بد اعمالیوں کا علم ہے اس نے اپنی حکمت سے ان کو ڈھیل دی ہوئی ہے وہ بہت جلد ان کا حساب لے گا اور ان کو ان کے جرائم کی سزا دے گا۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد
ہے :
"اور (اے محبوب!) اگر
پھر بھی یہ آپ سے جھگڑا کریں تو آپ کہئے کہ میں نے اور جس نے بھی میری پیروی کی ہے اس نے اللہ کے لیے اسلام قبول کر لیا ہے۔"
یہ آیت سیدنا محمد ﷺ کے دین کے تمام مخالفین کو شامل ہے عام ازیں کہ وہ
یہود و نصاری ہوں۔ مجوس ہوں یا بت پرست ہوں اس سے
پہلے یہ فرمایا تھا کہ اہل کتاب نے علم آنے کے باوجود سیدنا محمد ﷺ کی نبوت میں
اختلاف کیا اور اپنے کفر پر اصرار کیا اب اس آیت میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ
ان کے جواب میں یہ کہیں کہ میں نے تو اللہ کے حضور میں اپنا سر نیاز خم کر دیا ہے
کیونکہ اس سے پہلے نبی ﷺ اپنی نبوت کے صدق پر معجزات کو ظاہر کر چکے تھے، درخت آپ
کے بلانے پر چلے آئے۔ ہرنی نے آپ سے کلام کیا۔ گوہ نے کلمہ شہادت پڑھا۔ پتھر آپ پر
سلام عرض کرتے تھے چاند اور سورج آپ کے زیر تصرف تھے نیز اس سے پہلے جن آیات کا
ذکر کیا گیا ہے ان میں بھی آپ کے دین کے صدق کا بیان تھا۔
جب الحی القيوم فرمایا
تو عیسائیوں کا یہ دعوئی باطل ہو گیا کہ حضرت عیسی خدا ہیں یا خدا کے بیٹے ہیں
کیونکہ خدا وہ ہے جو ہمیشہ ہمیشہ زندہ ہو حضرت عیسی پہلے نہ تھے پھر پیدا ہوئے اور
مسیحی عقیدہ کے مطابق ان کو سولی دی گئی اور وہ فوت ہو گئے اور بہر حال قیامت سے
پہلے ایک دن انہوں نے فوت ہونا ہے اس سورت میں اللہ تعالی نے بدر کے اس معجزہ کا
ذکر فرمایا کہ مسلمانوں کی جماعت قلیل تھی لیکن کافروں کو دو چند نظر آتی تھی، پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید پر اپنی شہادت کا
ذکر کیا۔ غرض یہ کہ اللہ تعالی نے یہود و نصاری کی بد عقیدگیوں اور ان کے تمام
شبہات کا رد فرمایا اور سیدنا محمد ﷺ کی نبوت اور دین اسلام کے حق ہونے پر دلائل
قائم کئے اگر اس سب کے باوجود یہ لوگ اپنے کفر پر اصرار کرتے ہیں تو آپ کہہ دیجئے
کہ میں نے اور میرے پیرو کاروں نے تو بہر حال اپنا سر نیاز اللہ کے سامنے ختم کر
دیا ہے۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
"اور آپ اہل کتاب اور ان
پڑھ لوگوں سے کہئے کیا تم نے اسلام قبول کر لیا ؟ پھر اگر انہوں نے اسلام قبول کر لیا تو وہ ہدایت پاگئے ہیں
اور اگر انہوں نے روگردانی کی تو آپ کے ذمہ تو صرف دین کو پہنچا دینا ہے اور اللہ
ہی بندوں کو خوب دیکھنے والا ہے"۔
چونکہ اللہ تعالی نے نبی ﷺ کو اس آیت میں ان پڑھ لوگوں کو بھی مخاطب کرنے
کا حکم دیا ہے اس لئے ہم نے لکھا تھا کہ اس آیت میں تمام کفار سے خطاب ہے اللہ
تعالیٰ نے فرمایا ہے:
"کیا تم نے اسلام قبول کر
لیا ہے؟"
اللہ تعالی نے یوں نہیں فرمایا کہ آپ ان سے کہئے کہ تم اسلام قبول کر لو۔
امر کے بجائے استفہام سے خطاب فرمایا اور اس میں یہ اشارہ ہے کہ:
آپ کا مخاطب بہت ضدی اور ہٹ دھرم ہے اور وہ انصاف پسند نہیں ہے کیونکہ منصف
مزاج شخص کے سامنے جب کوئی چیز دلیل سے ثابت ہو جائے تو پھر وہ حیل و حجت نہیں
کرتا اور اس کو فورا قبول کر لیتا ہے۔
(ماخذ از: تبیان القرآن: تفسیر سورۃ آل عمران: آیت 19-20)
0 Comments