شب قدر کی فضیلت اور تعارف

 شب قدر کی فضیلت اور تعارف:

رمضان المبارک کی آخری دس راتوں میں سے ایک رات شب قدر ہے جو بہت ہی قدر و منزلت اور خیر و برکت کی حامل رات ہے اور اس رات میں اللہ تعالی نے قرآن مجید کو نازل فرمایا۔ اسی رات کو اللہ تعالیٰ نے ہزار مہینوں سے افضل قرار دیا ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے:

لَی٘لَةُ ال٘قَد٘رِ خَی٘رٌ مِّن٘ اَل٘فِ شَھ٘رٍ۝

ترجمہ: لیلۃ القدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔

شب قدر کی فضیلت اور تعارف
 شب قدر کی فضیلت اور تعارف

ہزار مہینے کے تراسی برس چار ماہ بنتے ہیں یعنی جس شخص کی یہ ایک رات عبادت میں گزری تو گویا اس نے تراسی برس چار ماہ کا زمانہ عبادت میں گزار دیا۔ اور تراسی برس کا زمانہ کم از کم ہے کیونکہ "خیر من الف شهر" کہہ کر اس کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالی ہزار مہینوں کی عبادت سے زیادہ اجر و ثواب عطا فرۓ گا۔

شب قدر کی وجۂ تسمیہ:

شب قدر کی وجۂ تسمیہ میں مختلف اقوال ہیں:

1- امام زہری یہ فرماتے ہیں کہ قدر کا معنی ہے مرتبہ و مقام چونکہ یہ رات باقی راتوں کے مقابلہ میں شرف و مرتبہ کے لحاظ سے بلند ہے اس لئے اسے لیلۃ القدر کہا جاتا ہے۔

2- حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ چونکہ اس رات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک سال کی تقدیر اور فیصلے فرشتوں کے سپرد کیے جاتے ہیں۔ اس وجہ سے اس رات کو لیلۃ القدر کہتے ہیں۔

3- قدر کا معنی "تنگی" بھی ہے۔ اس معنی کے لحاظ سے اس رات کو قدر والی کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس رات میں آسمان سے زمین پر اتنی کثرت کے ساتھ فرشتے نازل ہوتے ہیں کہ یہ زمین تنگ ہو جاتی ہے۔

(فضائل و مسائل صیام و رمضان، لعلامه غلام حسن قادری،اخذہ: تفسیر خازن)

‌‌شب قدر کی فضیلت میں احادیث:

1- امام مالک بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے معتمد اہل علم سے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سابقہ امتوں کی عمریں دکھائی گئیں تو آپ نے اپنی امت کی عمروں کو کم سمجھا اور یہ کہ وہ اتنے عمل نہیں کر سکیں گے جتنے لمبی عمر والے لوگ کرتے تھے۔ تو اللہ تعالی نے آپ کو لیلۃ القدر عطا کی جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ (تفسیر تبیان القرآن، لسعیدی، سورة القدر)

2- امام علی بن عروہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر کیا کہ بنی اسرائیل کے چار شخصوں نے اسی (۸۰) سال تک اللہ تعالٰی کی اس طرح عبادت کی کہ پلک جھپکنے کی مقدار بھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کئی۔ اور ان کے نام بتائے: حضرت ایوب، حضرت زکریا، حضرت حز قیل بن العجوز، اور حضرت یوشع بن نون علیہم السلام۔

 یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو تعجب ہوا۔ پھر آپ کے پاس حضرت جبریل علیہ السلام آئے اور کہا: اے محمد (صلی اللہ علیک وسلم ! آپ کی امت کو اس پر تعجب ہے کہ ان لوگوں نے اسی سال عبادت کی اور پلک جھپکنے کی مقدار بھی نافرمانی نہیں کی۔ اللہ تعالی نے اس سے اور بہتر چیز نازل کی ہے پھر آپ کے سامنے سورۃ القدر ۳-۱ آیات تلاوت کیں اور کہا: یہ اس سے افضل ہے جس پر آپ کو اور آپ کی امت کو تعجب ہوا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب خوش ہو گئے۔ (تفسیر تبیان القرآن، لسعیدی، سورة القدر)

3- امام دیلمی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی نے میری امت کو لیلۃ القدر عطا کی ہے اور اس سے پہلی امتوں کو عطا نہیں کی۔ (تفسیر تبیان القرآن، لسعیدی، سورة القدر)

4- حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے روزے رکھئے اللہ تعالی اس کے گزشتہ گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے۔ اور جس نے ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے لیلۃ القدر میں قیام کیا تو اللہ تعالی اس کے گزشتہ گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے۔ (تفسیر تبیان القرآن، لسعیدی، سورة القدر) 

Post a Comment

0 Comments